مقتولین سے ان کی پہچان تو نہ چھینو…قلم کمان …حامد میر

مقتولین سے ان کی پہچان تو نہ چھینو…قلم کمان …حامد میر

یہ ہمارے بزرگوں نے کتنے ارمانوں کے ساتھ برصغیر میں مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست کے خواب کا نام پاکستان رکھا تھا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے کس اعتماد و یقین کے ساتھ اس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے کیلئے محمد علی جناح  کا انتخاب کیا۔ نہ تو اقبال کی نظروں نے سنّی بن کر جناح کو دیکھا اور نہ ہی جناح  نے شیعہ بن کر پاکستان کیلئے جدوجہد کی بلکہ یہ بزرگ اول و آخر صرف اور صرف مسلمان تھے۔ ان بزرگوں کی پاکیزہ سوچ کے صدقے ہمیں پاکستان ملا لیکن افسوس کہ ان بزرگوں کے انتقال کے ساتھ ہی پیارے پاکستان کی قیادت پاکیزہ سوچ سے محروم ہوتی گئی۔ سیاست میں دیانت اور رواداری کی جگہ منافقت اور لسانی، نسلی و فرقہ وارانہ تعصب نے فروغ پانا شروع کیا۔ ان تعصبات نے جگہ جگہ ایسی آگ بھڑکائی جس پر دشمنوں نے خوب تیل ڈالا اور آج ہمارا پاکستان ایک ایسا مقتل بن چکا ہے جہاں قاتل اپنے نام اور اپنے خنجر بدل بدل کر ہمارے سر اڑا رہے ہیں۔ قاتلوں کا نشانہ صرف پاکستانی ہیں لیکن افسوس کہ ہم پاکستانی اپنے مقتولین کو کبھی سنّی بنا دیتے ہیں تو کبھی شیعہ، کبھی پختون بنا دیتے ہیں تو کبھی بلوچ اور کبھی سندھی بنا دیتے ہیں تو کبھی پنجابی۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دشمن ہمیں صرف اور صرف مسلمان اور پاکستانی سمجھتا ہے۔ لیکن ہماری موت کو فرقہ وارانہ، لسانی یا صوبائی کشمکش کا نتیجہ قراردینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ پاکستان کے مسلمان اپنے دشمنوں کے خلاف متحد نہ ہوسکیں۔
5/فروری 2010ء کو بھی دشمن نے کراچی میں شیعہ عزا داروں پر نہیں بلکہ پاکستانی مسلمانوں پر حملہ کیا۔ دشمن اتنا سفّاک ہے کہ اس نے ایک دھماکہ میں زخمی ہونے والوں کو چند لمحوں بعد اسپتال میں بھی نشانہ بنایا۔ افسوس کہ ہمارے کچھ سیاستدانوں اورمذہبی رہنماؤں نے تحقیقات کا انتظار کئے بغیر ہی اپنی اپنی مرضی اور مصلحت کے مطابق قاتلوں کی نشاندہی شروع کردی۔ یہ درست ہے کہ پچھلے تین سال سے پاکستان خودکش حملوں کی زد میں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن حملوں میں زیادہ جانی نقصانات ہوئے وہ خود کش حملے نہیں بلکہ ریموٹ کنٹرول سے کئے جانے والے بم دھماکے تھے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران پشاور کے مینا بازار، چار سدہ کے فاروق اعظم چوک اورکراچی کے مختلف علاقوں میں جو بم دھماکے ہوئے ان میں ریموٹ کنٹرول استعمال کئے گئے اور اس قسم کے بم دھماکوں کی تاریخ کم از کم 30 سال پرانی ہے۔ یہ دھماکے 80 کی دھائی میں شروع ہوئے جن میں غیر ملکی طاقتیں ملوث تھیں لیکن جب مذہبی لیڈروں نے اس قسم کے دھماکوں کا نشانہ بننا شروع کیا تو وقت کے حکمرانوں پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں۔ ذرا یاد کیجئے! علامہ احسان الٰہی ظہیر اور علامہ عارف الحسینی ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے تھے لیکن دونوں جنرل ضیاء الحق کی آمریت سے نفرت کرتے تھے 23/مارچ 1987ء کو مینار پاکستان لاہور میں ایک جلسے کے دوران علامہ احسان الٰہی ظہیر کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا تو ان کی جماعت نے مخالف فرقے کی بجائے حکومت وقت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ایک سال کے بعد 6/اگست 1988ء کو علامہ عارف الحسینی کو پشاور میں شہید کیا گیا تو حملے کا الزام ایک نوجوان فوجی افسر کیپٹن ماجد پر لگایا گیا۔ جنرل ضیا ء الحق کی ان دونوں رہنماؤں سے جان چھوٹ گئی لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد پاکستان کی جان جنرل ضیاء الحق سے چھوٹ گئی۔
فرقہ وارانہ، لسانی اور صوبائی سیاست نے جنرل ضیاء کے دور میں زور پکڑا اور جنرل ضیاء کا دور ختم ہونے بعد دشمن فرقہ وارانہ اور لسانی سیاست کے ذریعہ پاکستان کی پاکیزگی کو داغدار کرنے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف رہے۔1990ء میں سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی پر حملے کے بعد فرقہ وارانہ جماعتوں کے درمیان ایک نئی کشیدگی شروع ہوئی اور اس کشیدگی کا دائرہ ایرانی سفارت کاروں پر حملوں تک پھیل گیا۔ لاہور میں صادق گنجی اور ملتان میں محمد علی رحیمی پر حملوں کا مقصد محض شیعہ، سنی فساد بھڑکانا نہیں بلکہ پاکستان اور ایران کو جنگ کی طرف دھکیلنا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ دشمن کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ذریعہ فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس دوران ایک طرف مولانا ایثارالقاسمی اور مولانا ضیاء الرحمان فاروقی تو دوسری طرف ڈاکٹر محمد علی نقوی اور محسن نقوی سمیت کئی اہم شخصیات کو موت کی نیند سلادیا گیا لیکن اقبال اور جناح کے پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ نہ بھڑک سکی۔ 1998ء میں لال مسجد کے خطیب مولانا محمد عبداللہ کو پُراسرار طریقے سے اسلام آباد میں شہید کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد اوپر تلے واقعات ہوئے جن میں عون محمد رضوی کو راولپنڈی اور مولانا یوسف لدھیانوی کو کراچی میں شہید کیا گیا۔
گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد امریکی پالیسیوں کے باعث خطے میں شیعہ سنّی اختلافات بھڑکنے کا خدشہ پیدا ہوا۔ امریکا نے افغانستان پر قبضے کیلئے شمالی اتحاد کو استعمال کیا تو اس میں شیعہ جماعتیں بھی شامل تھیں۔ جنہیں ایران کی حمایت حاصل تھی۔ امریکی میڈیا نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ شیعہ ایران کی طرف سنّی طالبان کے خلاف لڑائی میں امریکا کا ساتھ دیا جا رہا ہے۔ 2003ء میں امریکی فوج نے عراق پر قبضہ کیا تو ایک دفعہ پھر امریکی میڈیا نے یہ تاثر دیا کہ شیعہ عراقیوں کی طرف سے سنّی صدام حسین کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک طرف عراق میں اہل تشیع اور اہل سنت کی عبادت گاہوں پر حملے شروع ہوگئے اور کچھ ہی عرصے میں ایسے ہی حملے پاکستان میں بھی شروع ہوگئے۔ 4/جولائی 2003ء کو کوئٹہ میں امام بار گاہ اثناء عشری پر خود کش حملہ ہوا جس میں 50 افراد کی جان گئی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد مولانا اعظم طارق کو اسلام آباد اور مفتی نظام الدین شامزئی کو کراچی میں شہید کردیا گیا۔ افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے 2004ء میں قبائلی علاقے میں فوجی آپریشن شروع کئے تو ایک فرقے کو دوسرے فرقے کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ یہ سلسلہ شکئی میں شروع ہوا لیکن اس کے منفی اثرات کُرم اور اورکزئی سے ہوتے ہوئے پورے پاکستان میں پھیلنے لگے۔ جون 2004ء میں ایک طرف کراچی میں امام بار گاہ خود کش حملے کا نشانہ بنی تو اکتوبر 2004ء میں مولانا اعظم طارق کی برسی کا اجتماع ملتان میں کار بم دھماکے کا نشانہ بنا۔ پھر یہ سلسلہ پھیلتا ہی گیا۔ کراچی میں مفتی محمد جمیل اور علامہ حسن ترابی، پشاور میں انور علی اخوند زادہ اور خیر پور میں علی شیر حیدری دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ کبھی نشتر پارک کراچی میں سنّی تحریک کے مولان عباس قادری 60 افراد کے ہمراہ شہید ہوئے تو کبھی کالعدم سپاہ صحابہ کے حافظ احمد بخش کے جنازے پر کراچی میں فائرنگ ہوئی۔ خود کش حملوں کی مذمت کرنے پر پشاور میں مولانا حسن جان اور لاہور میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو شہید کردیا گیا۔ ان تمام شہداء میں سے کسی کو شیعہ اور کسی کو سنّی قرار دیا گیا۔ لیکن درحقیقت یہ سب مسلمان اور پاکستانی تھے۔ افسوس کہ علامہ حسن ترابی اور مفتی نظام الدین شامزئی جیسے علماء جنرل پرویز مشرف کی امریکہ نوازی کے خلاف ایک موقف رکھتے تھے۔ لیکن دونوں کو نامعلوم خفیہ ہاتھوں نے شہید کردیا اور دونوں کے اصل قاتلوں کا پتہ نہ چل سکا۔ اس قتل و غارث میں اکثر اوقات اپنے ہی گمراہ پاکستانی بھائیوں کو استعمال کیا گیا لیکن استعمال کرنے والے ہمیشہ پاکستان کے دشمن تھے۔
سوچنے کی بات ہے کہ 5/فروری کو پوری قومی یوم یکجہتی کشمیر منا رہی تھی اور بھارت کے جبر و تسلط کی مذمت کر رہی تھی۔ اچانک کراچی بم دھماکوں سے گونج اٹھا اور ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر کشمیریوں کے حق میں مظاہروں کی جگہ بارود کا دھواں اور خون کے چھینٹے نظر آنے لگے۔ ہم بھارت کی مذمت کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی مذمت کرنے لگے خود ہی فیصلہ کیجئے کہ فائدہ کسے ہوا اور نقصان کسے ہوا؟ ہمیشہ کی طرح شعیہ عزا داروں پر حملے کے بعد کسی نہ کسی سنّی عالم دین پر حملہ کرکے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش جاری رہے گی، اب بھی وقت ہے، ہمیں سنبھلنا ہوگا، سوچنا ہوگا کہ ہمارا اصلی قاتل کون ہے؟ ہمیں اپنے مقتولین کو شیعہ اور سنّی کی نہیں بلکہ صرف اور صرف مسلمان اور پاکستانی کی پہچان دینی ہوگی۔ جب ہم اپنے مقتولین کو ان کی اصل پہچان دینے لگیں گے تو یہ دشمنوں کی موت ہوگی۔ ہمارے مقتولین کو وہ پہچان چاہئے جو اقبال اور جناح کی پہچان تھی۔ وہ نہ تو سنّی تھے اور نہ شیعہ تھے بلکہ صرف مسلمان اور پاکستانی تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.