ہلاک ہونے والوں میں سے قاتل کون تھا؟

ہلاک ہونے والوں میں سے قاتل کون تھا؟

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

کراچی کے بارے میں حکومت کی جانب سے کئی فیصلے ہوئے جن میں سے کسی پر بھی عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔

کراچی میں پر تشدد واقعات، ہنگامہ آرائی اور خوف و ہراس میں غروب ہونے والا سورج منگل کو اسی ماحول میں طلوع ہوا۔ صبح کو تمام تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز بند رہے اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کے ساتھ نجی گاڑیاں بھی نہ ہونے کے برابر رہیں۔

ماہ رمضان کی آمد اور سکولوں کی موسم گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد گزشتہ روز بازاروں اور مارکیٹوں میں گہماگہمی تھی۔ مگر آج ہر جگہ ویرانی نظر آئی۔ شہر کے دل کے نام سے پہچانے جانے والے علاقے ایمپریس مارکیٹ میں کچھ پریشان تو کچھ خوفزدہ دکانداروں سے ملاقات ہوئی۔

ان دکانداروں کا کہنا تھا کہ اچانک دو تین لڑکے آتے ہیں اور فائرنگ کر کے چلے جاتے ہیں حالانکہ ان کی دکانیں پہلے سے بند ہیں۔

ان میں اکثر ریڑھی لگانے اور مزدوری کرنے والے تھے جن کو یہ فکر تھی کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو ان کا گذارہ کیسے ہوگا۔

پاکستان کے دیگر علاقوں میں اقتصادی سرگرمیاں محدود ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی شہر کا رخ کرتی ہے۔ جس وجہ سے اس شہر کی آبادی غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پونے دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں چالیس لاکھ پشتون بھی شامل ہیں۔

دو بندر گاہوں کے ساتھ مرکزی بینک، کئی ملکی اور غیر ملکی مالیاتی اداروں اور کمپنیوں کے ہیڈ آفیس یہاں موجود ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملکی خزانے میں ساٹھ فیصد آمدن اسی شہر سے جاتی ہے۔

عام تعطیل کے ماحول میں شہر کی کئی سڑکوں پر بچے اور بڑے کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آئے۔ ایک جگہ رک کر میں ان نوجوانوں سے سوال کیا کہ آج دکانیں کیوں بند ہیں تو ان میں سے ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سوگ میں دکانیں بند رکھی ہوئی ہیں اور متحدہ کا ساتھ دیا ہے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ شہر میں ہلاکتیں کون کرا رہا ہے تو ان کا خیال تھا کہ اس میں ایجنسیاں ملوث ہوسکتی ہیں کیونکہ ہمیشہ کوئی تیسری قوت آ کر یہ کرتی ہے۔ جب کہ اس نوجوان کے ایک اور ساتھی کا کہنا تھا کہ یہ پورا ٹیم ورک نظر آتا ہے کیونکہ کراچی کے ساتھ حیدرآباد میں بھی ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ شہر میں ہلاکتیں کون کرا رہا ہے تو ان کا خیال تھا کہ اس میں ایجنسیاں ملوث ہوسکتی ہیں کیونکہ ہمیشہ کوئی تیسری قوت آ کر یہ کرتی ہے۔ جب کہ اس نوجوان کے ایک اور ساتھی کا کہنا تھا کہ یہ پورا ٹیم ورک نظر آتا ہے کیونکہ کراچی کے ساتھ حیدرآباد میں بھی ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے۔
ان نوجوانوں کے ساتھ موجود دو لڑکوں کی طرف میں نے اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یہ پشتون ہیں اور ہمارے بھائی ہیں۔ جب میں نے ان پشتون نوجوانوں سے بات کرنا چاہی تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔

لانڈھی میں ایک پیٹرول پمپ کو جلانے کے بعد مرکزی شہر کے تمام پیٹرول پمپ اور سی این جی اسٹیشن قناطیں لگا کر بند کردیئے گئے تھے جس کے باعث نجی گاڑیوں کے مالکان اور ٹیکسی ڈرائیوروں کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔

زینب مارکیٹ کے قریب ایک پریشان حال ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ پورا شہر بند اور سواری نایاب ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ان حالات میں وہ کیوں گھر سے نکلے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ خوف انہیں بھی آتا ہے مگر کیا کریں پیٹ کے لیے تو نکلنا پڑتا ہے۔

پچھلے ہفتے شہر میں پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کے بعد یکم جنوری سے جولائی تک ہلاکتوں کی جوڈیشل انکوائری، شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کے لیے سفارشات کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے اور رینجرز کا گشت بڑھانے اور چوکیاں قائم کرنے جیسے کئی فیصلے ہوئے جن میں سے کسی پر بھی عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر، ان کے محافظ اور عوامی نیشنل پارٹی کے دو کارکنوں کے علاوہ ہلاک ہونے والے کون ہیں؟ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ عام لوگ تھے۔ اس سے قبل بھی دو ہزار سات سے لے کر گزشتہ ہفتے تک ان پرتشدد واقعات کا نشانہ عام لوگ ہی بنے جن کے مقدمات اور تفتیش نامعلوم وجوہات کے بنا پر بند کر دی گئی۔

شام کو ایک ایس ایم ایس آیا ہے جس میں پوچھا گیا کہ ہلاک آخر ہلاک ہونے والے پچاس افراد میں سے رکن صوبائی اسمبلی کا قاتل کون تھا؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.