Amrika, Pakistan, Islam and everything in between

Tag: سے

ہلاک ہونے والوں میں سے قاتل کون تھا؟

ہلاک ہونے والوں میں سے قاتل کون تھا؟

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

کراچی کے بارے میں حکومت کی جانب سے کئی فیصلے ہوئے جن میں سے کسی پر بھی عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔

کراچی میں پر تشدد واقعات، ہنگامہ آرائی اور خوف و ہراس میں غروب ہونے والا سورج منگل کو اسی ماحول میں طلوع ہوا۔ صبح کو تمام تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز بند رہے اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کے ساتھ نجی گاڑیاں بھی نہ ہونے کے برابر رہیں۔

ماہ رمضان کی آمد اور سکولوں کی موسم گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد گزشتہ روز بازاروں اور مارکیٹوں میں گہماگہمی تھی۔ مگر آج ہر جگہ ویرانی نظر آئی۔ شہر کے دل کے نام سے پہچانے جانے والے علاقے ایمپریس مارکیٹ میں کچھ پریشان تو کچھ خوفزدہ دکانداروں سے ملاقات ہوئی۔

ان دکانداروں کا کہنا تھا کہ اچانک دو تین لڑکے آتے ہیں اور فائرنگ کر کے چلے جاتے ہیں حالانکہ ان کی دکانیں پہلے سے بند ہیں۔

ان میں اکثر ریڑھی لگانے اور مزدوری کرنے والے تھے جن کو یہ فکر تھی کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو ان کا گذارہ کیسے ہوگا۔

پاکستان کے دیگر علاقوں میں اقتصادی سرگرمیاں محدود ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی شہر کا رخ کرتی ہے۔ جس وجہ سے اس شہر کی آبادی غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پونے دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں چالیس لاکھ پشتون بھی شامل ہیں۔

دو بندر گاہوں کے ساتھ مرکزی بینک، کئی ملکی اور غیر ملکی مالیاتی اداروں اور کمپنیوں کے ہیڈ آفیس یہاں موجود ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملکی خزانے میں ساٹھ فیصد آمدن اسی شہر سے جاتی ہے۔

عام تعطیل کے ماحول میں شہر کی کئی سڑکوں پر بچے اور بڑے کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آئے۔ ایک جگہ رک کر میں ان نوجوانوں سے سوال کیا کہ آج دکانیں کیوں بند ہیں تو ان میں سے ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سوگ میں دکانیں بند رکھی ہوئی ہیں اور متحدہ کا ساتھ دیا ہے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ شہر میں ہلاکتیں کون کرا رہا ہے تو ان کا خیال تھا کہ اس میں ایجنسیاں ملوث ہوسکتی ہیں کیونکہ ہمیشہ کوئی تیسری قوت آ کر یہ کرتی ہے۔ جب کہ اس نوجوان کے ایک اور ساتھی کا کہنا تھا کہ یہ پورا ٹیم ورک نظر آتا ہے کیونکہ کراچی کے ساتھ حیدرآباد میں بھی ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ شہر میں ہلاکتیں کون کرا رہا ہے تو ان کا خیال تھا کہ اس میں ایجنسیاں ملوث ہوسکتی ہیں کیونکہ ہمیشہ کوئی تیسری قوت آ کر یہ کرتی ہے۔ جب کہ اس نوجوان کے ایک اور ساتھی کا کہنا تھا کہ یہ پورا ٹیم ورک نظر آتا ہے کیونکہ کراچی کے ساتھ حیدرآباد میں بھی ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے۔
ان نوجوانوں کے ساتھ موجود دو لڑکوں کی طرف میں نے اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یہ پشتون ہیں اور ہمارے بھائی ہیں۔ جب میں نے ان پشتون نوجوانوں سے بات کرنا چاہی تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔

لانڈھی میں ایک پیٹرول پمپ کو جلانے کے بعد مرکزی شہر کے تمام پیٹرول پمپ اور سی این جی اسٹیشن قناطیں لگا کر بند کردیئے گئے تھے جس کے باعث نجی گاڑیوں کے مالکان اور ٹیکسی ڈرائیوروں کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔

زینب مارکیٹ کے قریب ایک پریشان حال ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ پورا شہر بند اور سواری نایاب ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ان حالات میں وہ کیوں گھر سے نکلے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ خوف انہیں بھی آتا ہے مگر کیا کریں پیٹ کے لیے تو نکلنا پڑتا ہے۔

پچھلے ہفتے شہر میں پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کے بعد یکم جنوری سے جولائی تک ہلاکتوں کی جوڈیشل انکوائری، شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کے لیے سفارشات کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے اور رینجرز کا گشت بڑھانے اور چوکیاں قائم کرنے جیسے کئی فیصلے ہوئے جن میں سے کسی پر بھی عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر، ان کے محافظ اور عوامی نیشنل پارٹی کے دو کارکنوں کے علاوہ ہلاک ہونے والے کون ہیں؟ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ عام لوگ تھے۔ اس سے قبل بھی دو ہزار سات سے لے کر گزشتہ ہفتے تک ان پرتشدد واقعات کا نشانہ عام لوگ ہی بنے جن کے مقدمات اور تفتیش نامعلوم وجوہات کے بنا پر بند کر دی گئی۔

شام کو ایک ایس ایم ایس آیا ہے جس میں پوچھا گیا کہ ہلاک آخر ہلاک ہونے والے پچاس افراد میں سے رکن صوبائی اسمبلی کا قاتل کون تھا؟

مقتولین سے ان کی پہچان تو نہ چھینو…قلم کمان …حامد میر

مقتولین سے ان کی پہچان تو نہ چھینو…قلم کمان …حامد میر

یہ ہمارے بزرگوں نے کتنے ارمانوں کے ساتھ برصغیر میں مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست کے خواب کا نام پاکستان رکھا تھا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے کس اعتماد و یقین کے ساتھ اس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے کیلئے محمد علی جناح  کا انتخاب کیا۔ نہ تو اقبال کی نظروں نے سنّی بن کر جناح کو دیکھا اور نہ ہی جناح  نے شیعہ بن کر پاکستان کیلئے جدوجہد کی بلکہ یہ بزرگ اول و آخر صرف اور صرف مسلمان تھے۔ ان بزرگوں کی پاکیزہ سوچ کے صدقے ہمیں پاکستان ملا لیکن افسوس کہ ان بزرگوں کے انتقال کے ساتھ ہی پیارے پاکستان کی قیادت پاکیزہ سوچ سے محروم ہوتی گئی۔ سیاست میں دیانت اور رواداری کی جگہ منافقت اور لسانی، نسلی و فرقہ وارانہ تعصب نے فروغ پانا شروع کیا۔ ان تعصبات نے جگہ جگہ ایسی آگ بھڑکائی جس پر دشمنوں نے خوب تیل ڈالا اور آج ہمارا پاکستان ایک ایسا مقتل بن چکا ہے جہاں قاتل اپنے نام اور اپنے خنجر بدل بدل کر ہمارے سر اڑا رہے ہیں۔ قاتلوں کا نشانہ صرف پاکستانی ہیں لیکن افسوس کہ ہم پاکستانی اپنے مقتولین کو کبھی سنّی بنا دیتے ہیں تو کبھی شیعہ، کبھی پختون بنا دیتے ہیں تو کبھی بلوچ اور کبھی سندھی بنا دیتے ہیں تو کبھی پنجابی۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دشمن ہمیں صرف اور صرف مسلمان اور پاکستانی سمجھتا ہے۔ لیکن ہماری موت کو فرقہ وارانہ، لسانی یا صوبائی کشمکش کا نتیجہ قراردینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ پاکستان کے مسلمان اپنے دشمنوں کے خلاف متحد نہ ہوسکیں۔
5/فروری 2010ء کو بھی دشمن نے کراچی میں شیعہ عزا داروں پر نہیں بلکہ پاکستانی مسلمانوں پر حملہ کیا۔ دشمن اتنا سفّاک ہے کہ اس نے ایک دھماکہ میں زخمی ہونے والوں کو چند لمحوں بعد اسپتال میں بھی نشانہ بنایا۔ افسوس کہ ہمارے کچھ سیاستدانوں اورمذہبی رہنماؤں نے تحقیقات کا انتظار کئے بغیر ہی اپنی اپنی مرضی اور مصلحت کے مطابق قاتلوں کی نشاندہی شروع کردی۔ یہ درست ہے کہ پچھلے تین سال سے پاکستان خودکش حملوں کی زد میں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن حملوں میں زیادہ جانی نقصانات ہوئے وہ خود کش حملے نہیں بلکہ ریموٹ کنٹرول سے کئے جانے والے بم دھماکے تھے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران پشاور کے مینا بازار، چار سدہ کے فاروق اعظم چوک اورکراچی کے مختلف علاقوں میں جو بم دھماکے ہوئے ان میں ریموٹ کنٹرول استعمال کئے گئے اور اس قسم کے بم دھماکوں کی تاریخ کم از کم 30 سال پرانی ہے۔ یہ دھماکے 80 کی دھائی میں شروع ہوئے جن میں غیر ملکی طاقتیں ملوث تھیں لیکن جب مذہبی لیڈروں نے اس قسم کے دھماکوں کا نشانہ بننا شروع کیا تو وقت کے حکمرانوں پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں۔ ذرا یاد کیجئے! علامہ احسان الٰہی ظہیر اور علامہ عارف الحسینی ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے تھے لیکن دونوں جنرل ضیاء الحق کی آمریت سے نفرت کرتے تھے 23/مارچ 1987ء کو مینار پاکستان لاہور میں ایک جلسے کے دوران علامہ احسان الٰہی ظہیر کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا تو ان کی جماعت نے مخالف فرقے کی بجائے حکومت وقت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ایک سال کے بعد 6/اگست 1988ء کو علامہ عارف الحسینی کو پشاور میں شہید کیا گیا تو حملے کا الزام ایک نوجوان فوجی افسر کیپٹن ماجد پر لگایا گیا۔ جنرل ضیا ء الحق کی ان دونوں رہنماؤں سے جان چھوٹ گئی لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد پاکستان کی جان جنرل ضیاء الحق سے چھوٹ گئی۔
فرقہ وارانہ، لسانی اور صوبائی سیاست نے جنرل ضیاء کے دور میں زور پکڑا اور جنرل ضیاء کا دور ختم ہونے بعد دشمن فرقہ وارانہ اور لسانی سیاست کے ذریعہ پاکستان کی پاکیزگی کو داغدار کرنے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف رہے۔1990ء میں سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی پر حملے کے بعد فرقہ وارانہ جماعتوں کے درمیان ایک نئی کشیدگی شروع ہوئی اور اس کشیدگی کا دائرہ ایرانی سفارت کاروں پر حملوں تک پھیل گیا۔ لاہور میں صادق گنجی اور ملتان میں محمد علی رحیمی پر حملوں کا مقصد محض شیعہ، سنی فساد بھڑکانا نہیں بلکہ پاکستان اور ایران کو جنگ کی طرف دھکیلنا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ دشمن کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ذریعہ فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس دوران ایک طرف مولانا ایثارالقاسمی اور مولانا ضیاء الرحمان فاروقی تو دوسری طرف ڈاکٹر محمد علی نقوی اور محسن نقوی سمیت کئی اہم شخصیات کو موت کی نیند سلادیا گیا لیکن اقبال اور جناح کے پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ نہ بھڑک سکی۔ 1998ء میں لال مسجد کے خطیب مولانا محمد عبداللہ کو پُراسرار طریقے سے اسلام آباد میں شہید کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد اوپر تلے واقعات ہوئے جن میں عون محمد رضوی کو راولپنڈی اور مولانا یوسف لدھیانوی کو کراچی میں شہید کیا گیا۔
گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد امریکی پالیسیوں کے باعث خطے میں شیعہ سنّی اختلافات بھڑکنے کا خدشہ پیدا ہوا۔ امریکا نے افغانستان پر قبضے کیلئے شمالی اتحاد کو استعمال کیا تو اس میں شیعہ جماعتیں بھی شامل تھیں۔ جنہیں ایران کی حمایت حاصل تھی۔ امریکی میڈیا نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ شیعہ ایران کی طرف سنّی طالبان کے خلاف لڑائی میں امریکا کا ساتھ دیا جا رہا ہے۔ 2003ء میں امریکی فوج نے عراق پر قبضہ کیا تو ایک دفعہ پھر امریکی میڈیا نے یہ تاثر دیا کہ شیعہ عراقیوں کی طرف سے سنّی صدام حسین کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک طرف عراق میں اہل تشیع اور اہل سنت کی عبادت گاہوں پر حملے شروع ہوگئے اور کچھ ہی عرصے میں ایسے ہی حملے پاکستان میں بھی شروع ہوگئے۔ 4/جولائی 2003ء کو کوئٹہ میں امام بار گاہ اثناء عشری پر خود کش حملہ ہوا جس میں 50 افراد کی جان گئی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد مولانا اعظم طارق کو اسلام آباد اور مفتی نظام الدین شامزئی کو کراچی میں شہید کردیا گیا۔ افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے 2004ء میں قبائلی علاقے میں فوجی آپریشن شروع کئے تو ایک فرقے کو دوسرے فرقے کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ یہ سلسلہ شکئی میں شروع ہوا لیکن اس کے منفی اثرات کُرم اور اورکزئی سے ہوتے ہوئے پورے پاکستان میں پھیلنے لگے۔ جون 2004ء میں ایک طرف کراچی میں امام بار گاہ خود کش حملے کا نشانہ بنی تو اکتوبر 2004ء میں مولانا اعظم طارق کی برسی کا اجتماع ملتان میں کار بم دھماکے کا نشانہ بنا۔ پھر یہ سلسلہ پھیلتا ہی گیا۔ کراچی میں مفتی محمد جمیل اور علامہ حسن ترابی، پشاور میں انور علی اخوند زادہ اور خیر پور میں علی شیر حیدری دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ کبھی نشتر پارک کراچی میں سنّی تحریک کے مولان عباس قادری 60 افراد کے ہمراہ شہید ہوئے تو کبھی کالعدم سپاہ صحابہ کے حافظ احمد بخش کے جنازے پر کراچی میں فائرنگ ہوئی۔ خود کش حملوں کی مذمت کرنے پر پشاور میں مولانا حسن جان اور لاہور میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو شہید کردیا گیا۔ ان تمام شہداء میں سے کسی کو شیعہ اور کسی کو سنّی قرار دیا گیا۔ لیکن درحقیقت یہ سب مسلمان اور پاکستانی تھے۔ افسوس کہ علامہ حسن ترابی اور مفتی نظام الدین شامزئی جیسے علماء جنرل پرویز مشرف کی امریکہ نوازی کے خلاف ایک موقف رکھتے تھے۔ لیکن دونوں کو نامعلوم خفیہ ہاتھوں نے شہید کردیا اور دونوں کے اصل قاتلوں کا پتہ نہ چل سکا۔ اس قتل و غارث میں اکثر اوقات اپنے ہی گمراہ پاکستانی بھائیوں کو استعمال کیا گیا لیکن استعمال کرنے والے ہمیشہ پاکستان کے دشمن تھے۔
سوچنے کی بات ہے کہ 5/فروری کو پوری قومی یوم یکجہتی کشمیر منا رہی تھی اور بھارت کے جبر و تسلط کی مذمت کر رہی تھی۔ اچانک کراچی بم دھماکوں سے گونج اٹھا اور ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر کشمیریوں کے حق میں مظاہروں کی جگہ بارود کا دھواں اور خون کے چھینٹے نظر آنے لگے۔ ہم بھارت کی مذمت کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی مذمت کرنے لگے خود ہی فیصلہ کیجئے کہ فائدہ کسے ہوا اور نقصان کسے ہوا؟ ہمیشہ کی طرح شعیہ عزا داروں پر حملے کے بعد کسی نہ کسی سنّی عالم دین پر حملہ کرکے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش جاری رہے گی، اب بھی وقت ہے، ہمیں سنبھلنا ہوگا، سوچنا ہوگا کہ ہمارا اصلی قاتل کون ہے؟ ہمیں اپنے مقتولین کو شیعہ اور سنّی کی نہیں بلکہ صرف اور صرف مسلمان اور پاکستانی کی پہچان دینی ہوگی۔ جب ہم اپنے مقتولین کو ان کی اصل پہچان دینے لگیں گے تو یہ دشمنوں کی موت ہوگی۔ ہمارے مقتولین کو وہ پہچان چاہئے جو اقبال اور جناح کی پہچان تھی۔ وہ نہ تو سنّی تھے اور نہ شیعہ تھے بلکہ صرف مسلمان اور پاکستانی تھے۔

عمران خان سے عمران خان تک ,,,,صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود

عمران خان سے عمران خان تک ,,,,صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود
11/17/2007
جب طبیعت پر اداسی اور پژمردگی یعنی ایمرجنسی چھائی ہو تو کچھ لکھنے اور قلم پکڑنے کو جی نہیں چاہتا چاہے سامنے موضوعات کا ڈھیر لگا ہو۔ میں بھی چند دنوں سے قلم توڑے بیٹھا تھا کہ دن کے 11 بجے موبائل کی گھنٹی بجی۔ فون کان کے ساتھ لگایا تو آواز آئی ”ڈاکٹر صاحب! میں امریکہ سے خرم بول رہا ہوں اور میں نے صرف عمران خان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر احتجاج کے لئے فون کیا ہے۔“ میں نے حیرت سے پوچھا کہ کیوں عمران خان کو کیا ہوا؟ جواب ملا کہ گویا آپ کو کچھ علم نہیں۔ اس وقت امریکہ میں رات کاایک بجا ہے اور میں”جیو“ دیکھ رہا ہوں جس میں دکھایا جا رہا ہے کہ عمران خان کو اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین نے جسمانی تشدد کے بعد کمرے میں یرغمال بنا کر بند کردیا ہے۔ یہ سن کر میرے دل کو دھچکا لگا اور میں سوچنے لگا کہ امریکہ نے تو ہمیں بمباری کے ذریعے پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی صرف دھمکی دی تھی لیکن ایمرجنسی نے ہمیں سچ مچ پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا ہے۔ ہماری بے خبری کا یہ عالم ہے کہ لاہور بیٹھے ہوئے کچھ علم نہیں ہوتا کہ ہم سے چند میل کے فاصلے پر کیا ہورہا ہے۔ یقینا یہ روشن خیال حکومت کا سیاہ ترین کارنامہ ہے جو قیامت تک نفرت کا نشانہ بنا رہے گا اور فیض اور جالب کے کلام کی یاد دلاتا رہے گا جو آمریت کے بدترین دور میں لکھا گیا۔ اور جوہر آمریت کے دور کی آمرانہ پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس پر پھر کبھی !! عمران خان کے ساتھ یونیورسٹی کیمپس میں جو کچھ ہوا اس کی مذمت اور ملامت کے حوالے سے دن بھر فون آتے رہے لیکن میرا جی نہیں مانتا تھا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین حکومت کے ہاتھوں میں کھیل کر اپنی بدنامی کا سامان کریں گے۔ کئی حضرت کا کہنا تھا کہ حکومت کا پیسہ چلا ہے جبکہ کچھ حضرات کا اصرار تھا کہ چند طلبہ کے ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس پولیس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ یہ باتیں سن کر میرا پوچھنے کو جی چاہتا تھا کہ آخر وہ طلبہ کہاں گئے جنہوں نے عمران خان کو یونیورسٹی آنے اور ان کے احتجاج کی قیادت کی دعوت دی تھی؟ آخر وہ خاموش تماشائی کیوں بنے رہے؟ شاید جمعیت کے خوف سے کیونکہ جمعیت کا خوف بھی کسی ایمرجنسی کے خوف سے کم نہیں ہوتا۔

اتنے میں دسویں بار فون کی گھنٹی بجی تو آواز آئی ”میں کینیڈا سے بول رہی ہوں اور آپ کے کالموں کی قاری ہوں۔ میں فقط یہ کہنا چاہتی ہوں کہ عمران خان ہیرا ہے جسے ساری دنیا جانتی ہے لیکن شاید پاکستان کے لوگوں کو اس کا علم نہیں۔ عمران خان آرام دہ زندگی، شہرت، اعلیٰ مرتبہ اور رئیسانہ ٹاٹھ باٹھ چھوڑ کر پاکستان کے غریب عوام کی خدمت کے عزم کے ساتھ باہر نکلا ہے۔ اگر اسے وزارتوں کا لالچ ہوتا تو ضیا الحق نے اسے کئی بار وزارت کی آفر کی تھی۔ پرویز مشرف بھی اسے وزیر بنانے پر بضد تھے اور اگر وہ سیاست میں نہ آتا تو آج شاید نگراں وزیر اعظم بن کر سابق وزرائے اعظم کی فہرست میں چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ جگہ پاتا لیکن وہ صرف اور صرف عوام کی خدمت کے جذبے سے میدان میں اترا ہے۔ بی بی نے ایک سکینڈ کا توقف کیا تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ آپ اس پر دل گرفتہ نہ ہوں کہ عمران خان کے ساتھ یونیورسٹی میں غیر متوقع اور تکلیف دہ سلوک ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس حرکت کے خلاف خاموش اکثریت متحرک ہو کر باہر نکل آئے گی۔ اور یہ احتجاج حکومت کے خلاف تحریک کا روپ دھارلے اور ایوب خان کے دور کی مانند طلبہ کے تازہ خون سے احتجاج کا الاؤ بھڑک اٹھے گا۔ میں نے تسلی دے کر محترمہ کو چپ کرا دیا لیکن مجھے اس بات کا یقین تھا کہ عمران کے ساتھ ناروا سلوک کے خلاف احتجاج ضرور ہوگا، جمعیت بھی ذمہ دار عناصر کے خلاف کارروائی کرے گی اور یوں طلبہ کا احتجاج بالآخر تحریک کا حصہ بن جائے گا۔

اس طرح عمران خان کے مقصد کی تکمیل ہو جائے گی ورنہ اگر وہ اس روز چند نعرے لگوا کر گرفتار ہو جاتا تو شاید اگلے دو تین دنوں میں طلبہ کی احتجاجی تحریک کمزور ہو کر ختم ہو جاتی۔ میں عمران خان کو جانتا ہوں، نہ کبھی ملاہوں لیکن میں نے گزشتہ ایک سال کے دوران خان اعظم کو کئی بار ٹی وی چینلوں پر سنا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ میں اسے محض ایک کھلنڈرا نوجوان سمجھتا تھا لیکن اسے ٹی وی کی اسکرین پر بار بار سن کر اندازہ ہوا کہ عمران نے بہت محنت کی ہے وہ ملک کے معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کا ادراک رکھتا ہے، اس میں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ موجزن ہے، وہ منافق نہیں اور سچ بولتا ہے اور بہادری سے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتا ہے لیکن ان تمام باتوں کے علاوہ جس بات نے مجھے ذاتی طورپر متاثر کیا وہ تھی عمران کی ملک کے بوسیدہ نظام میں تبدیلی کی خواہش… کہ کس طرح عوام کو موجودہ استحصالی نظام سے نجات دلائی جائے اور ملک کے ڈھانچے میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔

ہم نے پاکستان میں حکومتوں کو بنتے، ٹوٹتے اور بدلتے دیکھا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے حکمرانوں کی کارکردگی کے بھی عینی شاہد ہیں اور سابق حکمرانوں کی سوچ اور سیاسی حکمت عملی کو بھی کسی حد تک سمجھتے ہیں۔ میری ایماندارانہ رائے اور مخلصانہ خواہش ہے کہ موجودہ بوسیدہ نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے مسائل حل ہوں۔ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے سابق حکمراں ”ڈنگ ٹپاؤ“ یعنی وقت گزاری اور حکمرانی میں یقین رکھتے ہیں۔ ان میں نہ ہی نظام میں تبدیلی کی صلاحیت تھی اور نہ ہی خواہش۔ اور جب تک موجودہ نظام نہ بدلا جائے، عوام کے مسائل
حل ہوں گے نہ ان کی مایوسی کا کفر ٹوٹے گا۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت میں صرف دو نوجوان ایسے ہیں جو ہمیں موجودہ استحصالی اور گلے سڑے نظام سے نجات دلانے کی آرزو، تمنا اور صلاحیت رکھتے ہیں اول میاں شہباز شریف دوم عمران خان۔ میاں شہباز شریف کے باطن میں انقلاب کی آرزو پوشیدہ ہے۔ وہ ملک وقوم کا درد اور مسائل کا پورا ادراک رکھتا ہے۔ مجھ توقع ہے کہ حالات کی سنگدلی، سیاست کے جبر اور جلاوطن کی سنگلاخی نے اس کی ”جلدبازی“ کو تحمل میں بدل دیا ہوگا اور انشا اللہ اس نے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہوگا۔

عمران خان کو ابھی آزمانا باقی ہے لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس میں نظام کی تبدیلی کی مخلصانہ خواہش موجود ہے اور اگر اسے موقع ملا تو وہ اپنے خواب کو شرمندہٴ تعبیر کرلے گا کیونکہ عمران عزم و ہمت کا نشان ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے یہ خبر سنی کہ عمران خان پر دہشت گردی کورٹ (TERRORIST) میں مقدمہ چلایا جائے گا تو میں اسے ”مخول“ (JOKE) سمجھا کیونکہ کوئی حکومت بھی اتنی احمق یا باؤلی نہیں ہوسکتی کہ عمران خان جیسے جمہوری لیڈر پر دہشت گردی کا مقدمہ بنائے کیونکہ خود عمران خان دہشت گردی کے خلاف ہے اور اس نے کبھی خود کو ایسی دہشت گردی کی لہر کا حصہ نہیں بنایا۔ مجھے لگتا ہے کہ موجودہ عہد میں دہشت گردی کا مفہوم بدل چکا ہے اور اب اس سے مراد ہے آمرانہ نظام کی مخالفت، حکمرانوں پر کڑی تنقید۔ اس حوالے سے یقینا عمران مجرم بھی ہے اور ملزم بھی اور اسے سچ بولنے کی سزا ملنی چاہئے کیونکہ منافقوں کے ہجوم میں سچ بولنے والا بہرحال مجرم ہوتا ہے۔ نازو نعمت میں پلا ہوا عمران جیل کا عادی ہے نہ پنجاب پولیس کے مظالم کا لیکن مجھے یقین ہے کہ عمران جیل کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے گا کیونکہ جیل بذات خود سیاست کی اہم ترین استاد ہوتی ہے۔

یوں بھی عمران خان بڑی جیل سے چھوٹی جیل میں گیا ہے اس لئے اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں یہاں تک لکھ چکا تو پتہ چلا کہ عمران خان کو ہتھکڑی لگا کر اور دہشت گردوں کے مخصوص بڑے ٹرک کے اندر صندوق نما جیل میں بند کرکے ڈیرہ غازی خان جیل لے جایا جارہا ہے اور اس وقت اس کا قافلہ خانیوال سے گزر رہا ہے۔ آگے پیچھے پولیس ہی پولیس ہے جیسے عمران خان کسی بم دھماکے یا خود کش حملے کا ملزم ہو نہ کہ کسی سیاسی جمہوری جماعت کا قائد۔ کم از کم اب تو ہمیں سمجھ جانا چاہئے کہ ایمرجنسی کا ہدف کیا تھا۔ لیکن یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ ایمرجنسی کا ہدف عدلیہ، میڈیا اور مخالف سیاستدان ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ان حالات میں صاف شفاف انتخابات ہوسکتے ہیں!!
http://search.jang.com.pk/urdu/details.asp?nid=234311http://www.jang-group.com/jang/nov2007-daily/17-11-2007/editorial/col2.gifhttp://www.jang-group.com/jang/nov2007-daily/17-11-2007/editorial/col2a.gif

© 2025 Desi Thoughts

Theme by Anders NorenUp ↑