Amrika, Pakistan, Islam and everything in between

Tag: ramblings

why would they follow me

Looking through the list of folks who follow me on twitter (i wouldnt follow myself), i came across something really interesting. Shaadi.com USA follows me, it is a troubling sign …. either they want me to get in serious trouble at home with wifey or something else.

عمران خان سے عمران خان تک ,,,,صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود

عمران خان سے عمران خان تک ,,,,صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود
11/17/2007
جب طبیعت پر اداسی اور پژمردگی یعنی ایمرجنسی چھائی ہو تو کچھ لکھنے اور قلم پکڑنے کو جی نہیں چاہتا چاہے سامنے موضوعات کا ڈھیر لگا ہو۔ میں بھی چند دنوں سے قلم توڑے بیٹھا تھا کہ دن کے 11 بجے موبائل کی گھنٹی بجی۔ فون کان کے ساتھ لگایا تو آواز آئی ”ڈاکٹر صاحب! میں امریکہ سے خرم بول رہا ہوں اور میں نے صرف عمران خان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر احتجاج کے لئے فون کیا ہے۔“ میں نے حیرت سے پوچھا کہ کیوں عمران خان کو کیا ہوا؟ جواب ملا کہ گویا آپ کو کچھ علم نہیں۔ اس وقت امریکہ میں رات کاایک بجا ہے اور میں”جیو“ دیکھ رہا ہوں جس میں دکھایا جا رہا ہے کہ عمران خان کو اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین نے جسمانی تشدد کے بعد کمرے میں یرغمال بنا کر بند کردیا ہے۔ یہ سن کر میرے دل کو دھچکا لگا اور میں سوچنے لگا کہ امریکہ نے تو ہمیں بمباری کے ذریعے پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی صرف دھمکی دی تھی لیکن ایمرجنسی نے ہمیں سچ مچ پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا ہے۔ ہماری بے خبری کا یہ عالم ہے کہ لاہور بیٹھے ہوئے کچھ علم نہیں ہوتا کہ ہم سے چند میل کے فاصلے پر کیا ہورہا ہے۔ یقینا یہ روشن خیال حکومت کا سیاہ ترین کارنامہ ہے جو قیامت تک نفرت کا نشانہ بنا رہے گا اور فیض اور جالب کے کلام کی یاد دلاتا رہے گا جو آمریت کے بدترین دور میں لکھا گیا۔ اور جوہر آمریت کے دور کی آمرانہ پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس پر پھر کبھی !! عمران خان کے ساتھ یونیورسٹی کیمپس میں جو کچھ ہوا اس کی مذمت اور ملامت کے حوالے سے دن بھر فون آتے رہے لیکن میرا جی نہیں مانتا تھا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین حکومت کے ہاتھوں میں کھیل کر اپنی بدنامی کا سامان کریں گے۔ کئی حضرت کا کہنا تھا کہ حکومت کا پیسہ چلا ہے جبکہ کچھ حضرات کا اصرار تھا کہ چند طلبہ کے ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس پولیس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ یہ باتیں سن کر میرا پوچھنے کو جی چاہتا تھا کہ آخر وہ طلبہ کہاں گئے جنہوں نے عمران خان کو یونیورسٹی آنے اور ان کے احتجاج کی قیادت کی دعوت دی تھی؟ آخر وہ خاموش تماشائی کیوں بنے رہے؟ شاید جمعیت کے خوف سے کیونکہ جمعیت کا خوف بھی کسی ایمرجنسی کے خوف سے کم نہیں ہوتا۔

اتنے میں دسویں بار فون کی گھنٹی بجی تو آواز آئی ”میں کینیڈا سے بول رہی ہوں اور آپ کے کالموں کی قاری ہوں۔ میں فقط یہ کہنا چاہتی ہوں کہ عمران خان ہیرا ہے جسے ساری دنیا جانتی ہے لیکن شاید پاکستان کے لوگوں کو اس کا علم نہیں۔ عمران خان آرام دہ زندگی، شہرت، اعلیٰ مرتبہ اور رئیسانہ ٹاٹھ باٹھ چھوڑ کر پاکستان کے غریب عوام کی خدمت کے عزم کے ساتھ باہر نکلا ہے۔ اگر اسے وزارتوں کا لالچ ہوتا تو ضیا الحق نے اسے کئی بار وزارت کی آفر کی تھی۔ پرویز مشرف بھی اسے وزیر بنانے پر بضد تھے اور اگر وہ سیاست میں نہ آتا تو آج شاید نگراں وزیر اعظم بن کر سابق وزرائے اعظم کی فہرست میں چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ جگہ پاتا لیکن وہ صرف اور صرف عوام کی خدمت کے جذبے سے میدان میں اترا ہے۔ بی بی نے ایک سکینڈ کا توقف کیا تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ آپ اس پر دل گرفتہ نہ ہوں کہ عمران خان کے ساتھ یونیورسٹی میں غیر متوقع اور تکلیف دہ سلوک ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس حرکت کے خلاف خاموش اکثریت متحرک ہو کر باہر نکل آئے گی۔ اور یہ احتجاج حکومت کے خلاف تحریک کا روپ دھارلے اور ایوب خان کے دور کی مانند طلبہ کے تازہ خون سے احتجاج کا الاؤ بھڑک اٹھے گا۔ میں نے تسلی دے کر محترمہ کو چپ کرا دیا لیکن مجھے اس بات کا یقین تھا کہ عمران کے ساتھ ناروا سلوک کے خلاف احتجاج ضرور ہوگا، جمعیت بھی ذمہ دار عناصر کے خلاف کارروائی کرے گی اور یوں طلبہ کا احتجاج بالآخر تحریک کا حصہ بن جائے گا۔

اس طرح عمران خان کے مقصد کی تکمیل ہو جائے گی ورنہ اگر وہ اس روز چند نعرے لگوا کر گرفتار ہو جاتا تو شاید اگلے دو تین دنوں میں طلبہ کی احتجاجی تحریک کمزور ہو کر ختم ہو جاتی۔ میں عمران خان کو جانتا ہوں، نہ کبھی ملاہوں لیکن میں نے گزشتہ ایک سال کے دوران خان اعظم کو کئی بار ٹی وی چینلوں پر سنا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ میں اسے محض ایک کھلنڈرا نوجوان سمجھتا تھا لیکن اسے ٹی وی کی اسکرین پر بار بار سن کر اندازہ ہوا کہ عمران نے بہت محنت کی ہے وہ ملک کے معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کا ادراک رکھتا ہے، اس میں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ موجزن ہے، وہ منافق نہیں اور سچ بولتا ہے اور بہادری سے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتا ہے لیکن ان تمام باتوں کے علاوہ جس بات نے مجھے ذاتی طورپر متاثر کیا وہ تھی عمران کی ملک کے بوسیدہ نظام میں تبدیلی کی خواہش… کہ کس طرح عوام کو موجودہ استحصالی نظام سے نجات دلائی جائے اور ملک کے ڈھانچے میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔

ہم نے پاکستان میں حکومتوں کو بنتے، ٹوٹتے اور بدلتے دیکھا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے حکمرانوں کی کارکردگی کے بھی عینی شاہد ہیں اور سابق حکمرانوں کی سوچ اور سیاسی حکمت عملی کو بھی کسی حد تک سمجھتے ہیں۔ میری ایماندارانہ رائے اور مخلصانہ خواہش ہے کہ موجودہ بوسیدہ نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے مسائل حل ہوں۔ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے سابق حکمراں ”ڈنگ ٹپاؤ“ یعنی وقت گزاری اور حکمرانی میں یقین رکھتے ہیں۔ ان میں نہ ہی نظام میں تبدیلی کی صلاحیت تھی اور نہ ہی خواہش۔ اور جب تک موجودہ نظام نہ بدلا جائے، عوام کے مسائل
حل ہوں گے نہ ان کی مایوسی کا کفر ٹوٹے گا۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت میں صرف دو نوجوان ایسے ہیں جو ہمیں موجودہ استحصالی اور گلے سڑے نظام سے نجات دلانے کی آرزو، تمنا اور صلاحیت رکھتے ہیں اول میاں شہباز شریف دوم عمران خان۔ میاں شہباز شریف کے باطن میں انقلاب کی آرزو پوشیدہ ہے۔ وہ ملک وقوم کا درد اور مسائل کا پورا ادراک رکھتا ہے۔ مجھ توقع ہے کہ حالات کی سنگدلی، سیاست کے جبر اور جلاوطن کی سنگلاخی نے اس کی ”جلدبازی“ کو تحمل میں بدل دیا ہوگا اور انشا اللہ اس نے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہوگا۔

عمران خان کو ابھی آزمانا باقی ہے لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس میں نظام کی تبدیلی کی مخلصانہ خواہش موجود ہے اور اگر اسے موقع ملا تو وہ اپنے خواب کو شرمندہٴ تعبیر کرلے گا کیونکہ عمران عزم و ہمت کا نشان ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے یہ خبر سنی کہ عمران خان پر دہشت گردی کورٹ (TERRORIST) میں مقدمہ چلایا جائے گا تو میں اسے ”مخول“ (JOKE) سمجھا کیونکہ کوئی حکومت بھی اتنی احمق یا باؤلی نہیں ہوسکتی کہ عمران خان جیسے جمہوری لیڈر پر دہشت گردی کا مقدمہ بنائے کیونکہ خود عمران خان دہشت گردی کے خلاف ہے اور اس نے کبھی خود کو ایسی دہشت گردی کی لہر کا حصہ نہیں بنایا۔ مجھے لگتا ہے کہ موجودہ عہد میں دہشت گردی کا مفہوم بدل چکا ہے اور اب اس سے مراد ہے آمرانہ نظام کی مخالفت، حکمرانوں پر کڑی تنقید۔ اس حوالے سے یقینا عمران مجرم بھی ہے اور ملزم بھی اور اسے سچ بولنے کی سزا ملنی چاہئے کیونکہ منافقوں کے ہجوم میں سچ بولنے والا بہرحال مجرم ہوتا ہے۔ نازو نعمت میں پلا ہوا عمران جیل کا عادی ہے نہ پنجاب پولیس کے مظالم کا لیکن مجھے یقین ہے کہ عمران جیل کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے گا کیونکہ جیل بذات خود سیاست کی اہم ترین استاد ہوتی ہے۔

یوں بھی عمران خان بڑی جیل سے چھوٹی جیل میں گیا ہے اس لئے اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں یہاں تک لکھ چکا تو پتہ چلا کہ عمران خان کو ہتھکڑی لگا کر اور دہشت گردوں کے مخصوص بڑے ٹرک کے اندر صندوق نما جیل میں بند کرکے ڈیرہ غازی خان جیل لے جایا جارہا ہے اور اس وقت اس کا قافلہ خانیوال سے گزر رہا ہے۔ آگے پیچھے پولیس ہی پولیس ہے جیسے عمران خان کسی بم دھماکے یا خود کش حملے کا ملزم ہو نہ کہ کسی سیاسی جمہوری جماعت کا قائد۔ کم از کم اب تو ہمیں سمجھ جانا چاہئے کہ ایمرجنسی کا ہدف کیا تھا۔ لیکن یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ ایمرجنسی کا ہدف عدلیہ، میڈیا اور مخالف سیاستدان ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ان حالات میں صاف شفاف انتخابات ہوسکتے ہیں!!
http://search.jang.com.pk/urdu/details.asp?nid=234311http://www.jang-group.com/jang/nov2007-daily/17-11-2007/editorial/col2.gifhttp://www.jang-group.com/jang/nov2007-daily/17-11-2007/editorial/col2a.gif

Today is not the best day

Things in Life are going some how strangely, Kinda depressed with them i guess. Allah does what is best for one and i hope i can see this. Don’t know what to write or say but feel like writing or speaking my self out, when i start writing i find that i am hollow from inside and nothing coming out of me to put on this blog, i guess life is sometimes like that.

What is the world coming to

What is the world coming to

Cairo street crowds target women
By Magdi Abdelhadi
Arab affairs analyst, BBC News

Egyptians are horrified by the news that women have been assaulted by hordes of young men in the centre of the capital, Cairo.

The incidents were first reported online by Egyptian bloggers, some of whom saw large number of men harassing the women and ripping off their clothes.

It all happened over the Eid al-Fitr period staring on 23 October, as thousands of young men thronged the streets of central Cairo to celebrate the end of the fasting month of Ramadan.

One blogger who took pictures of what happened dubbed the incidents “sexual voracity down town”.

According to the bloggers, the attackers targeted veiled as well as unveiled women who happened to be on their own.

The state media ignored the incidents, but ordinary Egyptians where shocked when they heard for the first time eyewitness accounts broadcast on the private television channel Dream.

Women chased

“We saw one girl being chased by a man, her blouse torn off, she ran inside a restaurant,” one eyewitness reported.

We took the girl inside and locked the door. There were four or five of us. But there were hundreds of young men outside trying to break down the door
Cairo shop owner

“Seconds later young boys were shouting that there was another one by the Miami cinema. We went there and saw another girl surrounded by a crowd trying to assault her. She managed to run inside a nearby building.

“A third girl jumped into a cab as she was being chased. But the taxi couldn’t move because of the crowd. Then they tried to pull the driver out of the car then the girl herself,” the witness told Dream TV.

One eyewitness was too embarrassed to recount what he saw: “There were youths harassing the young women. What a shame! I really can not say any more about it.”

Social malaise

One blogger wrote that as the police failed to protect the women, shop keepers had to intervene.

A shop owner described to the TV station what happened: “We took the girl inside and locked the door. There were four or five of us. But there were hundreds of young men outside trying to break down the door.”

The bloggers blamed the incidents on widespread sexual frustration among Egypt’s youths.

Most of them can not afford to get married and premarital sex is strictly forbidden.

One commentator said that this was evidence of the breakdown of law and order in Egypt.

Another said the state deployed the police only to suppress political dissent but could not care less about the welfare of its own citizens.

A psychologist, Amr Abu Khaleel, attributed the predatory behaviour to the possible use of drugs and the breakdown of traditional values.

One prominent writer and journalist, Nabeel Sharaf al-Deen, said that such behaviour was the symptom of a deeper malaise in Egyptian society and warned that such incidents were the first stirrings of much bigger social unrest.

A statement by the ministry of the interior played down the incident, adding that it had not received any complaints from the public. It urged those who had anything to report to contact the police.

Story from BBC NEWS:
http://news.bbc.co.uk/go/pr/fr/-/2/hi/middle_east/6106500.stm

Published: 2006/11/01 14:36:51 GMT

© 2025 Desi Thoughts

Theme by Anders NorenUp ↑